اسلام کی روشنی میں یومِ مزدور: عدل، حق اور وقار

اسلام کی روشنی میں یومِ مزدور: حق، عدل اور وقار کا پیغام

✒️ عرفان علی سید نوشہروی
03335200236

یکم مئی کو دنیا بھر میں یومِ مزدور کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن ان محنت کشوں کی قربانیوں کو یاد کرنے، ان کے حقوق کا تحفظ کرنے اور انہیں معاشرے میں باعزت مقام دینے کی ایک عالمی کوشش ہے۔ لیکن جب ہم ایک اسلامی ریاست، یعنی پاکستان کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس دن کو محض ایک سرکاری تعطیل سمجھنے کی بجائے ایک فکری، اخلاقی اور دینی نقطۂ نظر سے دیکھنا ہوگا۔ اسلام نے مزدور کو جو مقام اور حقوق دیے ہیں، وہ دنیا کے کسی بھی نظام میں اس درجے کے ساتھ موجود نہیں۔ اسلام کے معاشرتی، اقتصادی اور عدالتی اصول محض نظریاتی دعوے نہیں بلکہ عملی نمونے کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور خلفائے راشدین کی سیرت سے مزین ہیں۔

اسلام محنت کو عبادت کا درجہ دیتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ “اور انسان کے لیے کچھ نہیں مگر وہی جس کی اس نے کوشش کی۔” (النجم: 39)۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ محنت کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ ہے اور معاشرے میں بھی اسے وہی مقام حاصل ہونا چاہیے جس کے وہ حقدار ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “کسی نے اس سے بہتر کھانا کبھی نہیں کھایا جو اس نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھایا ہو۔” (صحیح بخاری)۔

اسلام مزدور کے کئی بنیادی حقوق بیان کرتا ہے۔ سب سے پہلا اور بنیادی حق یہ ہے کہ اس کی اجرت بروقت ادا کی جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مزدور کو اس کی مزدوری اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔” (ابن ماجہ)۔

اسلامی ریاست کے ذمہ داران پر لازم ہے کہ وہ محنت کشوں کے ساتھ عدل و انصاف کا رویہ اختیار کریں۔ اسلامی معاشی نظام میں کسی بھی قسم کے استحصال کی گنجائش نہیں۔ مزدور کی محنت کے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، لیکن اگر اسے اس کی محنت کا صلہ نہ ملے تو یہ ظلم اور زیادتی کے مترادف ہے۔

یومِ مزدور کی تاریخ مغربی دنیا سے وابستہ ہے، بالخصوص 1886ء کے شکاگو کی تحریک سے جہاں مزدوروں نے 8 گھنٹے کام کے مطالبے کے لیے آواز بلند کی۔ لیکن اسلامی اصولوں کے مطابق مزدور کو حقوق دینے کے احکام تو چودہ سو سال پہلے قرآن و حدیث میں موجود تھے۔

پاکستان کا آئین مزدوروں کے کچھ حقوق کو تسلیم کرتا ہے جیسے جبری مشقت کی ممانعت، معاشرتی انصاف کا فروغ، اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کی ذمہ داری۔ لیکن ان آئینی نکات کا زمین پر اطلاق کم ہی نظر آتا ہے۔

اسلامی ریاست میں حکمرانوں، سرمایہ داروں اور عام شہریوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مزدوروں کے ساتھ شفقت کا سلوک کریں، ان کے مسائل کو سنیں، اور ان کی مدد کریں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں ریاستی نظام اس قدر موثر تھا کہ زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ ملتا۔

اسلامی معاشی نظام میں سود، ذخیرہ اندوزی، دھوکہ دہی اور استحصال کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ جب مزدور کو اس کی محنت کا مکمل معاوضہ دیا جائے گا، تو اس کی خوشی اور اطمینان پیداوار میں اضافے اور معاشرتی امن کا باعث بنے گا۔

پاکستان میں موجودہ مزدور پالیسیوں کا جائزہ لیں تو بظاہر قوانین موجود ہیں، مثلاً کم از کم اجرت کا تعین، لیبر ویلفیئر فنڈ، سوشل سیکیورٹی اسکیمز، اور مزدوروں کی رجسٹریشن کا نظام۔ لیکن ان پر عملدرآمد نہایت کمزور ہے۔

ٹھیکیداری نظام ایک اور استحصالی نظام ہے جس میں مزدور کو عارضی بنیادوں پر رکھا جاتا ہے تاکہ اس پر کوئی قانونی، طبی یا مالی ذمہ داری نہ ڈالی جا سکے۔

یہ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں مزدوروں کے لیے ایک اسلامی فریم ورک تشکیل دیا جائے۔ شرعی کونسل کے تحت ایک مستقل بورڈ بنایا جائے جو مزدور کے شرعی حقوق کے نفاذ کی نگرانی کرے۔

علمائے کرام، خطباء اور دینی ادارے ایک مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جمعہ کے خطبات میں مزدور کے حقوق کو شامل کیا جائے، مدارس میں اسلامی معاشیات کے اصولوں کی عملی تعلیم دی جائے۔

بچوں سے مزدوری کرانا شرعاً اور اخلاقاً دونوں اعتبار سے ظلم ہے۔ ان کی عمر کھیلنے، پڑھنے اور سیکھنے کی ہے نہ کہ کام کرنے کی۔

اسلام مزدور کو صرف جسمانی محنت کرنے والا نہیں سمجھتا بلکہ اسے معاشرتی نظام کا ایک اہم اور لازمی جزو تسلیم کرتا ہے۔ اسلام کے نزدیک وہ ہاتھ جو محنت میں مشغول ہوں، وہ اللہ کو پسند ہیں۔

یومِ مزدور ہمیں محض سیر و تفریح یا چھٹی کے دن کے طور پر نہیں منانا چاہیے بلکہ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم نے اپنے معاشرے کے سب سے زیادہ مظلوم طبقے، یعنی مزدور کو کیا دیا؟


Labels:
کالم

Tags:

کالم, یوم مزدور, اسلام اور محنت, مزدور کے حقوق, اسلامی ریاست, عرفان علی سید نوشہروی, اسلامی معیشت, معاشرتی انصاف, یکم مئی, شریعت اور مزدوری, محنت کش طبقہ, سماجی مسائل, اسلامی تعلیمات

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *