نوجوان نسل کی گمراہی: لمحۂ فکریہ اور اصلاحی راہیں
تحریر: عرفان علی سید نوشہروی
03335200236
قوموں کی تعمیر میں نوجوانوں کا کردار ریڑھ کی ہڈی
کی مانند ہوتا ہے۔ اگر نوجوان درست سمت میں ہوں تو و قومیں سربلند ہوتی ہیں، اور اگر وہ راہِ راست سے بھٹک جائیں تو بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ آج کا پاکستان ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں اس کی نوجوان نسل بظاہر تعلیم، ٹیکنالوجی اور جدید ذرائع سے آراستہ ہے، مگر باطن میں ایک خطرناک خلا، بے مقصدیت، اور گمراہی کی طرف بڑھتی جا رہی ہےجس کا نقصان صرف ان کی اپنی ذات کا نہیں بلکہ انکے مستقبل کا بھی ہے اور ملک و قوم کا بھی پاکستان میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد مختلف قسم کی منفی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نشے کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے۔ سگریٹ سے لے کر آئس، چرس، شراب اور دیگر منشیات کا استعمال ایک عام بات بنتی جا رہی ہے۔ خاص طور پر “آئس” جیسا مہلک نشہ معاشرے کے باصلاحیت نوجوانوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔
سوشل میڈیا جہاں معلومات اور رابطے کا ذریعہ ہے، وہیں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس کا استعمال وقت کا ضیاع، غیر اخلاقی مواد دیکھنے، اور جھوٹی شہرت کے حصول کے لیے کر رہی ہے۔ TikTok، Instagram اور دیگر پلیٹ فارمز پر فحاشی، بے حیائی، اور بے مقصد “ٹریندنگ” نے ہماری نئی نسل کے اذہان کو مفلوج کر دیا ہے۔
ہزاروں کی تعداد میں طلباء و طالبات محض ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں، مگر نہ ہی ان کے پاس کوئی وژن ہے اور نہ ہی کوئی مقصد۔عملی زندگی کے لیے تیاری کا شدید فقدان ہے۔ سست روی، غیر سنجیدگی اور نقل کا کلچر تعلیمی نظام کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ جب نوجوانوں کو تعلیم کے بعد نوکری نہیں ملتی تو وہ یا تو ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں یا جرائم، چوری، دھوکہ دہی اور سائیبر کرائم کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ کچھ گینگسٹر ازم اور اسلحہ کلچر میں فخر محسوس کرتے ہیں۔جس کی ذندہ مثالیں آپ روز سوشل میڈیا اور اپنے اردگرد دیکھتے ہیں
بدقسمتی سے اسلامی شعور، اخلاقی تربیت، اور روحانی ارتقاء سے دوری نے نوجوانوں کو صرف دنیاوی خواہشات کا بندہ بنا دیا ہے۔ جھوٹ، بے حیائی، بدتمیزی، بڑوں کی نافرمانی اور وقت کی ناقدری عام ہو چکی ہے۔ اس بگاڑ کے پیچھے کئی محرکات ہیں۔ جو اس سب کے ذمہ دار ہے سب سے پہلے والدین کی غفلت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بچوں کو وقت نہ دینا، ان کے جذباتی مسائل کو نظرانداز کرنا اور صرف مادی ضروریات پوری کرنا نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔ آج والدین اتنے کمزور ہو چکیں ہیں کہ اپنی اولاد سے بھی ڈرتے ہیں کہ اگر پچوں کی بات نا مانی تو یہ کچھ غلط کر لینگے آج والدین بے بس نظر آتے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ دین سے دوری ہے جبکہ تعلیمی اداروں کی بات کی جائے تو
تعلیمی ادارے محض کتابی تعلیم دے رہے ہیں، کردار
سازی اور اخلاقی تربیت کا فقدان ہے۔ فلموں، ڈراموں اور سوشل میڈیا پر دکھایا جانے والا غیر حقیقی، عیاشانہ لائف اسٹائل نوجوانوں کو غلط خواب دکھا رہا ہے۔ بے روزگاری، ناقص نصاب، اور ذہنی صحت کے لیے سہولیات کی کمی نے نوجوانوں کو مایوسی کا شکار کر دیا ہے۔ آج کے دور میں نوجوانوں کے پاس حقیقی ہیروز کی کمی ہے۔ ان کی جگہ فلمی کردار، یوٹیوبرز اور فحش شہرت یافتہ افراد نے لے لی ہے۔جس کا نقصان ہم کئی بار دیکھ چکیں ہیں سستی شہرت کی حصول کے لیے نوجوان نسل کیا کر رہی ہے سب کو معلوم ہے سو
یہ وقت ہے کہ ہم بحیثیتِ قوم سنجیدگی سے ان مسائل کا حل تلاش کریں اور اپنی نوجوان نسل کو بچائیں۔ ہر گھر، ہر اسکول اور ہر میڈیا پلیٹ فارم پر اسلامی تعلیمات کو عام کریں اس کے ساتھ سب سے اہم نوجوانوں کو قرآن، سیرت النبی ﷺ، اور صحابہ کرام کی زندگیوں سے روشناس کرایا کریں۔ اخلاقیات جیسے سچائی، صبر، حیا، اور خدمتِ خلق کو نصاب کا لازمی حصہ بنایا جائے۔ تاکہ ہمارے نوجوان نسل کا مستقبل روشن ہو جس سے ان کا اپنا مستقبل ہی نہیں ملک و قوم کا بھی مستقبل روشن ہو گا اس کے ساتھ ساتھ
والدین کو چاہیے کہ وہ صرف نگران نہ ہوں، بلکہ دوست بن کر بچوں سے بات کریں، ان کے مسائل سنیں اور رہنمائی فراہم کریں۔ ان کے اسکرین ٹائم، دوستوں اور دلچسپیوں پر گہری نظر رکھیں۔ پچوں پر جتنی کھڑی نظر ہوگی اتنے ہی پچے محفوظ ہونگیں اس کے ساتھ حکومت کو بھی چاہیے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ مل کر ایسا نظام بنائیں جس میں فحاشی، بے حیائی اور غلط معلومات کو مکمل طور پر ختم کیا جائے اورمثبت مواد کو فروغ دیں جیسے کہ دینی معلومات، علمی لیکچرز، اور قومی ہیروز کی کہانیاں۔
نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق بنایا جائے، جس میں فنی تعلیم، کاروباری تربیت، اور جذباتی ذہانت شامل ہو۔ طلبہ کو عملی میدان کے لیے تیار کیا جائے نہ کہ صرف رٹا سسٹم میں جھونکا جائے۔ حکومت چھوٹے کاروبار، فری لانسنگ، اور اسکل ڈیولپمنٹ پروگرامز کو عام کرے تاکہ نوجوان اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔ بے روزگاری کے خاتمے سے جرائم اور مایوسی میں واضح کمی آئے گی۔ جب نوجوان نسل کو راہِ راست پر لایا جائے گا تو یقیناً یہ والدین ملک و قوم کے لئے فائدے مند اور خوشی کی بات ہوگی جس سے دیگر نوجوان بھی مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے جہدوجہد کرینگے۔ دینی تعلیم و تربیت کے لیے حاص طور پر
خانقاہیں، مدارس اور مساجد کو نوجوانوں کی روحانی تربیت کا مرکز بنایا جائے۔ علما اور صوفیا کی صحبت میں رہ کر نوجوان اپنی شخصیت کو سنوار سکتے ہیں۔ میڈیا، اسکول، حکومت، علما، اساتذہ اور والدین مل کر ایک ہمہ گیر مہم شروع کریں جس کا مقصد ہو: “نوجوانو! تم پاکستان کے مستقبل ہو — خود کو پہچانو
اگر ہم آج کے نوجوان کو سنوارنے میں کامیاب ہو گئے توکل کا پاکستان ایک باوقار، بااخلاق اور ترقی یافتہ ملک ہوگا۔ مگر اگر ہم نے آنکھیں بند رکھیں تو یہ نوجوان نسل صرف اپنا نہیں، قوم کا مستقبل بھی تباہ کر دے گی۔ آئیے! ہم سب مل کر اس نسل کو گمراہی کے اندھیروں سے نکال کر روشنی کے سفر پر گامزن کرنے کے لیے اپنے طور پر عہد کریں کہ تعلیم، تربیت، شعور اور کردار سازی کے ذریعے ہی ہم ایک مضبوط، اسلامی اور خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔
نوجوان نسل کی گمراہی :لمحہ فکریہ اور اصلاحی راہیں
