مسلمانوں کی تقسیم و اتفاق، اتحاد اور ایمانداری کا اہم پیغام
تحریر: عرفان علی سید نوشہروی
اسلام ہمارا وہ کامل دین ہے جو نہ صرف عبادات کی رہنمائی کرتا ہے بلکہ انسان کے اخلاقی، معاشرتی، اور باہمی تعلقات کو بھی سنوارتا ہے۔ آج اگر ہم امت مسلمہ کی حالت پر نظریں ڈالیں تو ہر طرف انتشار نفرت بددیانتی اور کمزوری کے سائے نظر آتے ہیں۔ جس کے ذمہ دار ہم خود ہے۔ فلسطین،کشمیر،شام اور دیگر مسلم ممالک میں جاری ظلم و ستم ہماری اجتماعی کمزوری کی علامت بن چکے ہیں۔ اور سوچنا چاہیے کہ کون اس سب کا ذمہ دار ہے یہ وقت ہے کہ ہم مسلمان خود احتسابی کی طرف جائے اور دیکھیں اور معلوم کریں کہ ہم نے کہاں کہاں اپنے دین، اپنے اصولوں اور اپنے بھائیوں کے ساتھ خیانت کی اور کیا کیا غلطیاں کیں جس کی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے ۔
ہمارے دین اسلام کا پیغام اتحاد، اخوت اور دیانت پر قائم ہے۔ قرآن
مجید میں اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے کہ “اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نا پڑھو اور اللّٰہ کی نعمتوں کو یاد کرو”۔ لیکن آج ہم نے قوم، زبان، فقہ، اور فرقوں کی بنیاد پر خود کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے۔ جس کے یقیناً ہم ذمہ دار ہے ہم دوسروں کے حق میں سوچنے کی بجائے صرف اپنے ذاتی مفاد کی بات کرتے ہیں۔ ہم نے رشتے ناطے، دوستی، کاروبار اور ہر تعلق کو ذاتی مفاد پرستی کی بنیاد پر قائم کر لیا ہے۔ ہم بھول گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اس کو رسوا کرتا ہے، نہ اس سے نفرت کرتا ہے۔
ہماری موجودہ حالت یہ ہے کہ بازار میں مسلمان، مسلمان کو دھوکہ دیتا ہے۔ ناپ تول میں کمی ہمارا پیشہ بن چکا ہے ہم وعدہ خلافی ایسے کرتے ہیں جیسا ہمارا یہ فرض ہو، جھوٹ بولتے ہیں، غیبت کرتے ہیں، کیا کیا بتاؤں ایسے ایسے گناہ ہے کہ بندہ سوچے کہ تو بندہ ہے یا شیطان اور تو اور حسد میں دوسروں کا نقصان کرتے ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہم مسجد میں نمازی ہوتے ہیں اور بازار میں ظالم۔ ہماری دوہری شخصیت نے نہ صرف ہمارے معاشرے کو برباد کیا بلکہ دین کا تصور بھی داغدار کر دیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہمیں سکھاتی ہے کہ سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔
دیانتداری اور راست بازی صرف عبادات تک محدود نہیں، بلکہ یہ ہمارے روزمرہ کے ہر عمل میں ظاہر ہونی چاہیے۔ ہمیں عملی طور پر ایسے نیک اعمال کرنے چاہئیں جس سے کفار متاثر ہو کر دین کی طرف آئیں لیکن خیر یہ تب ممکن جب ہم کسی کے ساتھ لین دین میں سچائی، ملاوٹ سے پرہیز، وعدے کی پابندی اور ہر حق دار کو اس کا حق دیں تاکہ ہمارا معیار اور عملی زندگی نیک ہو یہ سب دینا دین کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت سے پہلے بھی صادق و امین کے لقب سے جانا جاتا تھا، اور آپ کے مخالفین بھی آپ کی دیانت پر انگلی نہیں اٹھا سکتے تھے۔
آج ہماری نوجوان نسل سوشل میڈیا پر الجھی ہوئی ہے، پڑھے لکھے لوگ جاہل بن چکیں ہیں کس طرف جا رہے ہیں کسی کو سمجھ نہیں آرہی جہاں اختلافات کو نفرت میں بدلا جا رہا ہے وہی ہمیں چاہیے کہ ہم نئی نسل کو قرآن و سنت کی تعلیم دیں، سیرتِ نبوی کے روشن اصولوں سے روشناس کرائیں، اسلامی تعلیمات کو دنیاوی تعلیمات پر ترجیح وقت کی اہم ضرورت ہے اپنے نوجوان نسل کو اتفاق، رواداری، اور دیانت کا سبق دیں۔ جب تک ہم اپنے اندر تبدیلی نہیں لائیں گے، اللہ بھی ہماری حالت نہیں بدلے گا۔ قرآن میں واضح اعلان ہے کہ “اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔”
آج ہمیں امت کے ایک ایک فرد کو جگانا ہوگا۔ ہمیں لڑائی جھگڑوں، نفرت، اور فتنوں سے دور رہنا ہوگا۔ ہمیں اپنے دلوں سے کینہ، بغض، اور حسد کو نکال کر خلوص، محبت، اور قربانی کی روش اپنانی ہوگی۔ اگر ہم نے آج بھی اپنے رویے نہ بدلے تو کل نہ ہم باقی رہیں گے اور نہ ہماری پہچان۔ ہم ختم ہو جائیں گے کوئی نام لینے والا نہیں ہوگا۔
ہمیں وہ امت بننا ہے جس کے بارے میں قرآن میں فرمایا گیا کہ “تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے نکالی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو”۔ لیکن افسوس، آج ہم برائی کو دیکھ کر خاموش رہتے ہیں، بلکہ خود برائی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں اور بھلائی کو کمزور سمجھتے ہیں۔ ہم غیبت سن کر خوش ہوتے ہیں، حسد کر کے مطمئن ہوتے ہیں، اور بددیانتی کر کے فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم زنا ، چوری، فراڈ اور ایسے ہر گناہ کر رہے ہے جو نہیں کرنے چاہئیں بلکہ ایک مثالی عملی زندگی کی بنیادیں رکھ کر اپنے نسلوں کے لئے راہ راست و درست سمت دیکھانی ہے،
میں، ایک گناہگار مسلمان، عرفان علی سید نوشہروی، دل کی گہرائیوں سے اپنے تمام مسلمان بہن بھائیوں سے گزارش کرتا ہوں کہ اب اور نہیں، اب ہم نے جاگنا ہے۔ ہم نے سب کو آگاہ کرنا ہے ،اب ہم نے توبہ کرنی ہے، قرآن کی طرف رجوع کرنا ہے، سچائی، دیانت اور اتفاق کو اپنانا ہے۔ اب ہم نے دوسروں کی اصلاح سے پہلے اپنی اصلاح کرنی ہے۔ اب ہمیں دنیا سے زیادہ آخرت کی فکر کرنی ہے۔ یہی درست سمت ہے اگر ہم اس سمت روانہ ہوگئے تو اپنی آخرت بھی بنائیں گے اور اللّٰہ کی رضا بھی حاصل ہوگی۔ انشاء اللّٰہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سچا، ایماندار، باعمل، اور متحد مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے دلوں کو جوڑ دے، ہمیں ایک دوسرے کا ہمدرد، مددگار اور خیر خواہ بنا دے۔ آمین۔