سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کا دفاعی معاہدہ — مزید کون سے ممالک پاکستان کے ساتھ معاہدہ کر سکتے ہیں؟

UrduTurn خبر

سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کا دفاعی معاہدہ — مزید کون سے ممالک پاکستان کے ساتھ معاہدہ کر سکتے ہیں؟

🌐 www.urduturn.com
Urdu Turn WhatsApp Channel فالو کریں

اسلام آباد/ریاض — پاکستان اور سعودی عرب نے ایک تاریخی دفاعی معاہدہ طے کیا ہے جس کے مطابق کسی بھی بیرونی جارحیت کی صورت میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوتا ہے تو اسے دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ اس معاہدے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ پاکستان حرمین شریفین کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھالے گا، جسے عالمِ اسلام میں ایک بڑی پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔

متحدہ عرب امارات اور قطر کے اشارے

دفاعی ذرائع کے مطابق اس معاہدے کے بعد متحدہ عرب امارات اور قطر نے بھی پاکستان کو اپنی سکیورٹی حکمتِ عملی میں شامل کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔ امکان ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ دونوں ممالک باضابطہ طور پر پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون کا اعلان کریں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ اتحاد نہ صرف خلیجی خطے میں امن قائم کرنے کا ذریعہ ہوگا بلکہ توانائی کے اہم راستوں کی حفاظت بھی یقینی بنائے گا۔

ترکی اور مصر کا ممکنہ کردار

اس کے ساتھ ساتھ ترکی اور مصر نے بھی اس معاہدے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ترکی پہلے ہی پاکستان کے ساتھ دفاعی ٹیکنالوجی، ڈرونز اور عسکری تربیت کے میدان میں قریبی تعلقات رکھتا ہے۔ ترکی سمجھتا ہے کہ ایک مشترکہ اسلامی دفاعی اتحاد خطے کو بیرونی اثرات سے محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ مصر نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ ایسے کسی پلیٹ فارم کو خوش آئند سمجھے گا جو اسلامی دنیا کی سلامتی کے لیے بنایا جائے۔

بھارت کی تشویش

بھارت نے اس معاہدے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ نئی دہلی کو خدشہ ہے کہ اگر پاکستان سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، ترکی اور مصر جیسے ممالک کے دفاعی ڈھانچے کا حصہ بن جاتا ہے تو خطے میں بھارت کا اثر کمزور ہو سکتا ہے۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے خلیجی ممالک پر انحصار کرتا ہے، اس لیے یہ نئی صف بندی اس کے مفادات کو براہِ راست متاثر کرے گی۔

امریکہ کا کردار کمزور؟

ماضی میں سعودی عرب اور قطر اپنی سکیورٹی کے لیے زیادہ تر امریکہ پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب پاکستان کی شمولیت اس بات کی علامت ہے کہ خلیجی ممالک اپنے دفاعی معاملات میں زیادہ خودمختار ہونا چاہتے ہیں۔ یہ تبدیلی عالمی طاقتوں کے لیے ایک بڑا اشارہ ہے کہ خطہ ایک نئی دفاعی سمت اختیار کر رہا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *